امرتسر ١۹ نومبر (ایجنسی/ ایس او نیوز) امرتسرکے دہشت گردانہ واقعہ نے مرکز سے لے کرریاستی حکومت تک کی تمام خفیہ ایجنسیوں کو محتاط کردیا ہے۔ گزشتہ دو تین سالوں میں پنجاب میں شدت پسندی میں اضافہ ہوا ہے۔ خاص کر گروگرنتھ صاحب کو جلائے جانے کے حادثے کے بعد شدت پسندی میں اضافہ دیکھنے کوملا ہے۔
ذرائع کی مانیں تو اسی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے پاکستان کی آئی ایس آئی نے اپنی چال چلنی شروع کردی۔ پاکستان پنجاب کے ناراض نوجوانوں کا برین واش کرکے انہیں دہشت گردی کے راستے پرلانے کی کوشش کررہا ہے، اسی کوشش کو شدت پسندی میں اضافہ ہونے کا سبب بھی مانا جارہا ہے۔
پنجاب میں کاونٹرٹیرراورخفیہ آپریشن میں لگی ایجنسیوں کا ماننا ہے کہ امرتسرکا واقعہ ایک آغازبھی ہوسکتا ہے۔ 15 دن قبل ہی پٹیالہ میں ایجنسیوں نے شبنم دیپ نام کے ایک شخص کو پکڑا تھا، جس سے پوچھ گچھ میں پتہ چلا تھا کہ انہیں آرایس ایس کے ذریعہ چلائے جارہے ایک اسکول پرحملہ کرنے کا ذمہ سونپا گیا تھا، جہاں شاکھا بھی لگتی ہے۔
حملہ کچھ اسی طرزپرہونا تھا جس طرزپرامرتسرمیں حملہ ہوا ہے۔ اس حملے کے بعد شبنم دیپ سے پھرسے پوچھ گچھ ہوئی، لیکن اس کے پاس امرتسرماڈیول کی کوئی اطلاع نہ ہونے کی بات پتہ چلی ہے۔ مطلب کس علاقے میں کون ایسے حادثات کو انجام دے گا، یہ ان لوگوں کوبھی معلوم نہیں ہے۔
ایجنسیوں کا دعوی ہے کہ آئی ایس آئی نے پنجاب تک اسلحہ پہنچا دیا ہے، جو کسی محفوظ ماڈیول کے پاس رکھا ہوا ہے۔ ایجنسیوں کا کہنا ہے کہ ان تمام لوگوں پرگہری نظربنی ہوئی ہے اورجیسے ہی ماند سے باہرآئیں گے، پکڑے جائیں گے۔ خفیہ ایجنسیوں کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ پنجاب میں ایجنسیوں کی سرگرمی کےسبب گزشتہ ایک سال میں تقریباً 80 خالصتانی حامی پکڑے جاچکے ہیں۔
آخر کارایجنسیاں اس نتیجے پرپہنچی ہیں کہ خالصتان کی مخالفت کرنے والے ادارے نشانے پرہیں۔ خفیہ ایجنسیوں کے مطابق اس میں آرایس ایس اورڈیرا بھی شامل ہیں۔ وہیں ایجنسیوں کی مشکل یہ ہے کہ سوشل میڈیا پرخالصتان حامیوں کی تعداد ہزاروں میں ہے۔ ایسے میں یہ پتہ لگا پانا مشکل ہے کہ آئی ایس آئی کسے ورغلاکردہشت گرد بنانے میں کامیاب ہورہا ہے۔ حالانکہ اس بارریاست اورمرکزی حکومت دونوں ہی دہشت گردوں کے ساتھ کوئی نرمی برتنے کے حق میں نہیں ہیں۔ اس لئے دہشت گردوں کا کھیل بننے سے پہلے ہی بگڑنے کے آثارزیادہ ہیں۔